پیغام عید نوروز – Rahbar Sayyed Ali Khamenei – Urdu

20-03-2013

بسم الله ‎الرّحمن الرّحیم

یا مقلّب القلوب و الأبصار، یا مدبّر اللّیل و النّهار، یا محوّل الحول و الأحوال، حوّل حالنا الی احسن الحال. اللّهمّ صلّ علی حبیبتك سیّدة نساء العالمین فاطمة بنت محمّد صلّی الله علیه و ءاله. اللّهمّ صلّ علیها و علی ابیها و بعلها و بنیها. اللّهمّ کن لولیّك الحجّة بن الحسن صلواتك علیه و علی ءابائه فی هذه السّاعة و فی کلّ ساعة ولیّا و حافظا و قائدا و ناصرا و دلیلا و عینا حتّی تسکنه ارضك طوعا و تمتّعه فیها طویلا. اللّهمّ اعطه فی نفسه و ذرّیّته و شیعته و رعیّته و خاصّته و عامّته و عدوّه و جمیع اهل الدّنیا ما تقر به عینه و تسرّ به نفسه.

تبریک و تہنیت پیش کرتا ہوں ملک بھر میں بسنے والے اپنے تمام ہم وطنوں، دنیا کے کسی بھی خطے میں مقیم ایرانیوں اور ان تمام اقوام کو جو عید نوروز مناتی ہیں۔ خاص طور پر اپنے عزیز \\\\\\\\\\\\\\\”ایثار گروں\\\\\\\\\\\\\\\” (دفاع وطن کے لئے محاذ جنگ پر جانے والے افراد) شہداء کے اہل خانہ، \\\\\\\\\\\\\\\”جانبازوں\\\\\\\\\\\\\\\” (دفاع وطن کے لئے مجاہدت کے دوران زخمی ہوکر جسمانی طور پر معذور ہو جانے والے افراد) ان کے اہل خانہ اور ان تمام افراد کو جو اسلامی نطام اور وطن عزیز کی خدمت میں مصروف ہیں۔ ہم امید کرتے ہیں کہ اللہ تعالی اس دن اور سال کے اس نقطہ آغاز کو ہماری قوم کے لئے اور تمام مسلمین عالم کے لئے نشاط و شادمانی اور بہتر حالات کا سرچشمہ قرار دیگا اور ہمیں اپنے فرائض کی انجام دہی میں کامیاب و کامران فرمائے گا۔ اپنے عزیز اہل وطن کی توجہ اس نکتے کی جانب مبذول کرانا چاہوں گا کہ ایام عید کے اواسط میں ایام فاطمیہ ہیں اور ایام فاطمیہ کی تعظیم و تکریم ہم سب کے لئے لازم ہے۔

تحویل سال کی ساعت اور گھڑی در حقیقت ایک اختتام اور ایک آغاز کا درمیانی فاصلہ ہے، گزشتہ سال کا اختتام اور سال نو کا آغاز۔ البتہ بنیادی طور پر تو ہماری توجہ مستقبل کی طرف مرکوز رہنی چاہئے، سال نو کو دیکھنا چاہئے اور اس کے لئے خود کو آمادہ کرنا اور ضروری منصوبہ بندی کرنا چاہئے لیکن پیچھے مڑ کر ایک نظر اس راستے پر ڈال لینا بھی ہمارے لئے مفید ہے جو ہم نے طے کیا ہے تا کہ ہم محاسبہ کر سکیں کہ کیا کیا اور کس انداز سے یہ سفر طے کیا ہے اور ہمارے کاموں کے نتائج کیا نکلے؟ ہم اس سے سبق لیں اور تجربہ حاصل کریں۔

91 کا سال (تیرہ سو اکانوے ہجری شمسی مطابق 2012-2013 عیسوی) بڑے تنوع کا سال اور \\\\\\\\\\\\\\\”گوناگوں رنگوں اور نقوش\\\\\\\\\\\\\\\” کا سال رہا۔ شیریں تغیرات بھی رہے، تلخ واقعات بھی ہوئے، کامیابیاں بھی ملیں اور کہیں ہم پیچھے بھی رہ گئے۔ انسان کی پوری زندگی اسی طرح گزرتی ہے، اتار چڑھاؤ اور نشیب و فراز آتے رہتے ہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم نشیب سے باہر نکلیں اور خود کو بلندی پر پہنچائیں۔

سنہ 91 (ہجری شمسی) کے دوران عالم استکبار سے ہماری مقابلہ آرائی کے اعتبار سے جو چیز سب سے عیاں اور آشکارا رہی وہ ملت ایران اور اسلامی نظام کے خلاف دشمن کی سخت گیری تھی۔ البتہ قضیئے کا ظاہری پہلو دشمن کی سخت گیری کا تھا لیکن اس کا باطنی پہلو ملت ایران کے اندر پیدا ہونے والی مزید پختگی اور مختلف میدانوں میں حاصل ہونے والی کامیابیوں سے عبارت تھا۔ ہمارے دشمنوں کے نشانے پر مختلف میدان اور شعبے تھے تاہم بنیادی طور پر اقتصادی اور سیاسی شعبے ان کے اصلی نشانے تھے۔ اقتصادی میدان میں انہوں نے کہا اور واشگاف الفاظ میں اعلان کیا کہ پابندیوں کے ذریعے ایرانی عوام کی کمر توڑ دینا چاہتے ہیں لیکن وہ ملت ایران کی کمر نہیں توڑ پائے اور فضل پروردگار اور توفیق خداوندی سے ہم مختلف میدانوں میں قابل قدر پیشرفت حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے، جس کی تفصیلات عوام کے سامنے بیان کی گئی ہیں اور آئندہ بھی بیان کی جائیں گی۔ میں بھی انشاء اللہ اگر زندگی رہی تو پہلی فروردین (21 مارچ) کی اپنی تقریر میں اجمالی طور پر کچھ معروضات پیش کروں گا۔

اقتصادی شعبے میں بیشک عوام پر دباؤ پڑا، مشکلات پیدا ہوئیں، خاص طور پر اس لئے بھی کہ کچھ داخلی خامیاں بھی موجود تھیں، کچھ کوتاہیاں ہوئیں اور تساہلی برتی گئی جس سے دشمن کی سازشوں کو مدد ملی، لیکن مجموعی طور پر اسلامی نظام اور تمام عوام کی حرکت در حقیقت آگے کی سمت بڑھنے والا قدم ہے اور انشاء اللہ اس محنت کے ثمرات اور نتائج مستقبل میں ہم دیکھیں گے۔

سیاست کے میدان میں ایک طرف تو ان کی کوشش یہ تھی کہ ملت ایران کو تنہا کر دیں اور دوسری طرف ایرانی عوام کے اندر شک و تردد کی کیفیت پیدا کر دیں، ان کی قوت ارادی کو کمزور اور بلند حوصلے کو پست کر دیں۔ لیکن اس کے برعکس ہوا اور نتیجہ اس کے بالکل برخلاف نکلا۔ ملت ایران کو الگ تھلگ کرنے کا جہاں تک تعلق ہے تو نہ فقط یہ کہ ہماری علاقائی و عالمی سیاست کا دائرہ محدود نہیں ہوا بلکہ تہران میں دنیا کے ممالک کے سربراہوں اور عہدیداروں کی کثیر تعداد کی شرکت سے ناوابستہ تحریک کے اجلاس کے انعقاد جیسے نمونے سامنے آئے اور دشمنوں کی خواہش کے برخلاف تبدیلیاں ہوئیں اور ثابت ہو گیا کہ اسلامی جمہوریہ نہ فقط یہ کہ تنہا نہیں ہے بلکہ اسلامی جمہوریہ، ایران اسلامی اور ہماری عزیز قوم کو دنیا میں خاص احترام و تعظیم کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔

داخلی مسائل کے اعتبار سے دیکھا جائے تو ہمارے عزیز عوام نے جب احساسات و جذبات کے اظہار کا موقعہ آیا اور اس کا امکان ہوا، خاص طور پر 22 بہمن سنہ 91 (دس فروری 2013، اسلامی انقلاب کی فتح کی سالگرہ) کے موقعے پر اپنے جوش و جذبے کا کما حقہ اظہار کیا۔ گزشتہ برسوں سے زیادہ جوش و خروش کے ساتھ عوام میدان میں آئے۔ اس کا ایک نمونہ پابندیوں کے اوج کے زمانے میں صوبہ خراسان شمالی کے عوام کا (صوبے کے دورے کے موقعے پر قائد انقلاب اسلامی کے تاریخی استقبال کے لئے) میدان میں آنا تھا، جو اسلامی نظام کے تئیں اور خدمت گزار حکام کے تعلق سے عوام کے احساسات و جذبات کا آئینہ تھا۔ اس سال کے اندر بحمد اللہ کئی بڑے کام انجام پائے، علمی کاوشیں، بنیادی کام اور عوام و حکام کی طرف سے وسیع کوششیں دیکھنے میں آئیں۔ بحمد اللہ تیز رفتاری سے آگے بڑھنے بلکہ جست لگانے کے لئے زمین ہموار ہوئی ہے؛ اقتصادی شعبے میں بھی، سیاسی شعبے میں بھی اور دیگر حیاتی شعبوں میں بھی۔

92 (ہجری شمسی، 21 مارچ 2013 الی 20 مارچ 2014) کا سال لطف پروردگار اور مسلمان عوام کی بلند ہمتی سے جو امید افزا افق نمایاں ہوئے ہیں انہی کے مطابق ملت ایران کی مزید پختگی، تحرک اور پیشرفت کا سال ثابت ہوگا۔ اس معنی میں نہیں کہ دشمنوں کی مخاصمت میں کوئی کمی آ جائیگی بلکہ اس معنی میں کہ ارانی قوم کی آمادگی محکم، اس کی شراکت مزید موثر اور اپنے ہاتھوں سے اور اپنے بھرپور عزم و حوصلے کے ذریعے مستقبل کی تعمیر کا عمل انشاء اللہ مزید بہتر اور امید بخش ہوگا۔ البتہ سنہ 92 (ہجری شمسی) میں جو چیلنج ہمارے سامنے ہیں بنیادی طور پر ان کا تعلق انہی دونوں اہم میدانوں یعنی اقتصاد و سیاست سے ہے۔ اقتصادی شعبے میں ہمیں قومی پیداوار پر توجہ بڑھانی ہے، جیسا کہ گزشتہ سال کے نعرے میں نشاندہی کی گئی تھی۔ بیشک بہت سے کام انجام پائے ہیں لیکن قومی پیداوار کی ترویج اور ایرانی سرمائے اور کام کی حمایت ایک دراز مدتی مسئلہ ہے جو ایک سال میں مکمل نہیں ہو سکتا۔ خوش قسمتی سے سنہ 91 (ہجری شمسی) کی دوسری ششماہی کے دوران قومی پیداوار کی پالیسیوں کی منظوری اور ابلاغ کا عمل انجام پایا، یعنی در حقیقت پٹری بچھانے کا کام مکمل ہو گیا اور اب پارلیمنٹ اور مجریہ اسی کی اساس پر منصوبہ بندی اور بہترین حرکت کا آغاز کر سکتی ہیں اور بفضل پروردگار بلند ہمتی اور لگن کے ساتھ آگے بڑھ سکتی ہیں۔

سیاسی امور کے میدان میں سنہ 92 (ہجری شمسی) کا ایک اہم مرحلہ صدارتی انتخابات کا ہے، جو در حقیقت آئندہ چار سال کے لئے سیاسی و اجرائی مسائل اور ایک اعتبار سے عمومی امور مملکت کی سمت و جہت کا تعین کرے گا۔ انشاء اللہ عوام اس میدان میں بھی اپنی بھرپور شرکت کے ذریعے وطن عزیز کی خاطر اور اپنے لئے بہترین افق کا تعین کریں گے۔ البتہ ضروری ہے کہ اقتصادی شعبے میں بھی اور سیاسی شعبے میں بھی عوام کی شراکت مجاہدانہ ہو۔ جوش و جذبے کے ساتھ میدان میں قدم رکھا جائے، بلند ہمتی اور پرامید نگاہ کے ساتھ میدان میں وارد ہوا جائے، نشاط و امید سے معمور دل کے ساتھ میدانوں میں اترا جائے اور شجاعانہ انداز میں اپنے اہداف تک پہنچا جائے۔

اس زاویہ نگاہ کے ساتھ میں سنہ 92 (ہجری شمسی) کو \\\\\\\\\\\\\\\”سیاسی اور اقتصادی جہاد\\\\\\\\\\\\\\\” کے سال سے معنون کرتا ہوں اور امید کرتا ہوں کہ اس سال بفضل پروردگار ہمارے عزیز عوام اور ملک کے ہمدرد حکام کے ہاتھوں اقتصادی و سیاسی جہاد انجام پائے گا۔

پروردگار کی عنایات اور حضرت بقیۃ اللہ (ارواحنا فداہ) کی دعائے خیر کی امید کرتا ہوں اور عظیم الشان امام (خمینی رحمۃ اللہ علیہ) اور شہدائے گرامی کی ارواح مطہرہ پر درود و سلام بھیجتا ہوں۔

و السّلام علیكم و رحمةالله و بركاته