مسلم بن عقیلٔ و ہانی بن عروۂ کی شہادت

مسلم بن عقیلٔ و ہانی بن عروۂ کی شہادت

مسلم بن عقیل کو نو (۹) ذی الحجة /۶۰ ہجری میں ۲۸ سال کی عمر میں بکر بن حمران احمری نے شہید کیا اور ہانی بن عروہ کو ۸۹ سال کی عمر میں ابن زیاد کے غلام رشید نے شہید کیا۔

یزید نے عبیداللہ بن زیاد کو لکھا کہ کوفہ کے شیعوں نے مجھے خبر دی ہے کہ مسلم بن عقیل کوفہ میں آکر حسین کے لئے لشکر جمع کررہے ہیں، اس کو گرفتار کرکے زندان میں ڈال دے یا قتل کردے، یا کوفہ سے باہر بھیج دے، عبیداللہ ، یہ خط ملتے ہی اپنے بھائی عثمان کو بصرہ میں اپنی جگہ چھوڑ کر کوفہ کی طرف روانہ ہوا۔ کوفہ میں منبر پر جا کر خطبہ دیا اور کوفیوں کو دھمکی دی اور یزید کی خلاف ورزی کرنے سے ڈرایا اور یزید کی اطاعت کرنے میں انعام و اکرام کا وعدہ کیا اس دوران حضرت مسلم بن عقیل ، مختار کے گھر سے نکل کر ہانی کے گھر میں چھپ گئے، شیعہ حضرات چھپ کر جناب مسلم سے ملتے تھے اور ان کی بیعت کرتے تھے، ابن زیاد نے اپنے غلام معقل کو جاسوس بنایا کہ مسلم کو تلاش کرے اور ان کے بارے میں اس کو اطلاع دے، معقل شیعہ ہونے کے بہانہ سے روزانہ حضرت مسلم کی خدمت میں آتا تھا اور شیعوں کے اسرار سے ابن زیاد تک پہنچاتا رہتا تھا ، ایک روز اس نے ابن زیاد کو خبر دی کہ ہانی بن عروہ نے بیماری کا بہانہ بنا رکھا ہے اوراس لئے وہ تمہارے پاس نہیں آتے۔ ایک روز ابن زیاد نے ہانی بن عروہ کے خسر کو بلایا اور اس سے کہا : ہانی ہمارے پاس کیوں نہیں آتے؟ اس نے جواب دیا: مریض ہیں، عبیداللہ نے کہا: میں نے سنا ہے کہ اب صحیح ہوگئے ہیں، اگر صحیح نہیں ہوئے ہیں تو میں ان کی عیادت کو آؤں، ہانی بن عروہ کے خسر نے آکر سارا واقعہ ان کو سنایا اور کسی طریقہ سے ان کو ابن زیاد کے پاس لے آئے ، عبید اللہ نے کہا: اپنے پیروں سے اپنی موت کی طرف آئے ہو، اس کے بعد جناب مسلم کو اس کے سپرد کرنے کے سلسلہ میں ان کے درمیان مناظرہ ہوا لیکن ہانی بن عروہ نے قبول نہیں کیا کہ اپنے مہمان کو اس کے حوالہ کریں،

عبیداللہ نے آپ کو قید کردیا، جب جناب مسلم کو ہانی کے قید ہونے کی خبر ملی تو حضرت مسلم(علیہ السلام)نے فرمایا: بیعت کرنے والوں سے کہو کہ جنگ کیلئے باہر نکلیں، لوگ جناب ہانی کے گھر میں جمع ہوگئے اس کے بعددار الامارہ کامحاصرہ کرلیا۔

ابن زیاد نے اپنے اصحاب کو دارالامارہ سے باہر بھیجا تاکہ وہ اہل کوفہ اور بزرگان کو کو ڈرائے اور دھمکائیں، انہوں نے لوگوں کو ڈرایا اور کچھ کو لالچ دیا تاکہ وہ مسلم سے دورہوجائیں، مغرب کی نماز کا وقت ہوگیا ، حضرت مسلم نے نماز مغرب ادا کی تو اس جماعت میں سے صرف تیس افراد باقی بچے تھے، آپ نے جب مسجد سے باہر جانا چاہا تو دس افراد رہ گئے تھے اور جب آپ مسجد سے باہر نکلے تو کوئی بھی آپ کے ساتھ نہیں تھا، آپ متحیر حالت میں گلی کوچہ میں پھر رہے تھے کہ طوعہ کے گھر پہنچے ، طوعہ اپنے بیٹے کے انتظار میں دروازہ پر بیٹھی تھی، مسلم نے ان کو دیکھ کر سلام کیا ، طوعہ نے جواب سلام دیا ، آپ نے اس سے پانی طلب کیا، حضرت مسلم نے پانی پیا اور وہیں بیٹھ گئے، طوعہ نے کہا: اے بندہ خدا! تم نے پانی پی لیا ہے اب اٹھو اور اپنے گھر جاؤ، حضرت مسلم نے کو ئی جواب نہیں دیا، طوعہ نے اپنی بات کو دوبارہ دہرایا اور حضرت مسلم اسی طرح خاموش رہے، جب تیسری مرتبہ طوعہ نے کہا: یہاں سے اٹھ جاؤ ورنہ میںت مہارے یہاں بیٹھنے پرراضی نہیں ہوں، حضرت مسلم اٹھ گئے اور فرمایا: یاامة اللہ ، اس شہر میں میرا گھر نہیں ہے ، میں مسافر ہوں، کیا ممکن ہے کہ تم مجھ پر احسان کرو اور مجھے اپنے گھر میں پناہ دو ؟ طوعہ نے آپ کا واقعہ پوچھا؟ فرمایا: میں مسلم بن عقیل ہوں اور کوفیوں نے مجھے دھوکا دیا ہے اور میری مدد سے دست بردار ہوگئے ہیں، طوعہ نے عرض کیا ، تم مسلم ہو، اور ان کو اپنے گھر لے آئی اور ان کو ایک حجرہ میں لے گئی، کھانا پانی دیا لیکن حضرت مسلم نے نوش نہیں کیا، کچھ دیر بعد طوعہ کا بیٹا بلال گھر میں آیا اور تمام باتوں سے باخبر ہوگیا۔

اگلے روز ابن زیاد نے لوگوں کو جمع کیا اور ان سے کہا: ائے لوگو! مسلم فرار کر گئے ہیں اگر کسی کے گھر میں موجود ہو ئے اور اس نے ہمیں خبر نہ دی تو اس کی جان ومال محفوظ نہیں ہے، اور جو بھی مسلم کو ہمارے پاس لائے گا مسلم کی دیت اس کو دی جائے گی، طوعہ کے بیٹے نے حضرت مسلم کی خبر ابن زیاد کو دی ، ابن زیاد نے ایک لشکر طوعہ کے گھر بھیجا، حضرت مسلم باہر آئے اور ایک شیر کی طرح لشکر پر حملہ کیا، اور بہت سے لوگوں کو واصل جہنم کیا، آپ کے جسم بہت زخم لگ گئے تھے اور آپ کی کمر پر اتنے نیزے لگے تھے کہ آپ بیتاب ہوگئے ، اس حالت میں آپ کو گرفتار کرکے ابن زیاد کے پاس لے گئے، حضرت مسلم کی وصیتوں کے بعد بکر بن حمران نے دارالامارہ کی چھت پر آپ کا سر تن سے جدا کیا اور آپ کے سر مبارک کو زمین پر گرادیا پھر آپ کے جسم مبارک کو بھی زمین پر گرادیا۔
ابن زیاد نے حضرت ہانی کو قتل کرنے کے لئے بلایا، حکم دیا ، ہانی کو بازار لے جائیں، اور جہاں پر بھیڑ بکریوں کی خرید وفروخت ہوتی ہے وہاں پر آپ کو قتل کردیا جائے، ہانی بن عروہ کے ہاتھ باندھ کر دارالامارہ سے وہاں لے گئے، ابن زیاد کے غلام رشید نے آپ کو شہید کیا، ابن زیاد نے جناب مسلم اور ہانی کے سر مبارک کو یزید کے پاس بھیجدیا، اور یزید نے ان کے سروں کو دمشق کے دروازہ پر لٹکادیا، اور ابن زیاد کوخط لکھا اور اس کے کاموں کی تعریف کی(۱)۔

۱۔ حوادث الایام، ص ۲۸۴۔

متعلقہ تصاویریں